فضائل امیر معاویہ رضی اللہ عنہ

Maslake Ala-Hazrat Zindabad!

سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

    تاریخ قلم بند کرنے والا ہی تعصب کا شکار ہو تو نہ جانے کتنے حقائق کا خون ہو جاتا ہے اور نہ جانے کتنی شخصیات اس نا انصافی کا شکار ہو جاتی ہیں.

بہت سے متعصب مزاج مؤرخین نے بے شمار شخصیات کو غلط ڈھنگ سے پیش کیا اور ان کی زندگی کے حقیقی پہلوؤں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی لیکن اس سلسلے میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جو ظلم و ناانصافی کی گئی وہ شاید ہی کسی کے ساتھ کی گئی ہو.

ان کی شخصیت پر ایک بڑا الزام یہ لگایا گیا کہ وہ اہل بیت کے بدخواہ اور دشمن تھے کہ انھوں نے اہل بیت کے حقوق چھینے اور ان پر زیادتیاں کیں اور اہل بیت سے کبھی بھی خوش گوار تعلقات نہ رکھے اور ان کے ہم دردانہ اور مشفقانہ سلوک روا نہ رکھا.

اس لیے آج ہم اس تحریر میں یہ دکھائیں گے کہ اہل بیت کا آپ کے بارے میں کیا نظریہ تھا اور آپ اہل بیت کے ساتھ کیسا سلوک کرتے تھے.

ہم اپنی اس گفتگو کو درج ذیل چند گوشوں میں تقسیم کرتے ہیں:
امیر معاویہ حضور صلى الله عليه وسلم کی نظر میں
آنے والے شواہد سے اندازہ لگائیں کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی نظر میں آپ کا کیا مقام و مرتبہ ہے۔
نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے آپ کو کاتبین وحی میں شامل فرمایا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللہ علیہ الصلوۃ و السلام کی نگاہ میں آپ امانت دار، اور قابل اعتماد تھے۔
نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے اپنی زبان مبارک سے آپ کے فضائل و مناقب بیان کیے اور آپ کے حق میں دعا فرمائی ہے آپ کی حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
اللهم اجعله هاديا مهديا و اهد به
اے اللہ، معاویہ کو ہدایت دینے والا، اور ہدایت پانے والا بنا دے اور ان کے ذریعہ لوگوں کو ہدایت دے.( جامع الترمذي، باب مناقب معاوية بن أبي سفيان )

امیر معاویہ مولائے کائنات کی نظر میں
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان اختلافات ضرور رہے لیکن ان اختلافات کے باوجود اسلامی رشتہ آپ دونوں حضرات کے درمیان ہمیشہ قائم رہا. دلیل ملاحظہ فرمائیں:
جنگ صفین کے بعد کچھ لوگوں نے اہل شام اور امیر معاویہ کو برا بھلا کہنا شروع کیا تو حضرت علی نے یہ فرمان جاری کیا کہ کوئی بھی اہل شام اور معاویہ کو برا ہرگز نہ کہے. اس سلسلے میں حضرت علی کے ایک خط کا یہ مضمون پڑھنے کے قابل ہے:
’’ہمارے معاملے کا آغاز یوں ہوا کہ ہمارا اور اہل شام( معاویہ ) کا مقابلہ ہوا، لیکن یہ بات ظاہر ہے کہ ہمارا اور ان کا خدا ایک ہے، نبی ایک ہے، دعوت ایک ہے. اللہ پر ایمان رکھنے اور رسول اللہ علیہ الصلوۃ و السلام کی تصدیق کرنے میں ہم دونوں برابر ہیں. صرف خون عثمان کے بارے میں ہمارے اور ان کے درمیان اختلاف ہے اور ہم اس سے بری ہیں. لیکن معاویہ میرے بھائی ہیں۔‘‘( نہج البلاغہ ١٥١)

غور کریں کہ مولائے کائنات امیر معاویہ کو اپنا بھائی کہہ رہے ہیں. ان دونوں حضرات کے درمیان اسلامی اخوت و محبت کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہو سکتی ہے.

امیر معاویہ حسنین کریمین کی نظر میں
امام حسن رضی اللہ عنہ اور امیر معاویہ کے درمیان بھی اختلافات ہوئے اور جنگیں ہوئیں لیکن پھر بھی دونوں حضرات کو ایک دوسرے کی عظمت احساس رہا اور تا حیات تعلقات بھی رہے. شواہد یہ ہیں:

امام حسن نے جب دیکھا کہ مسلمانوں کی آپسی جنگ سے ملت کا بڑا نقصان ہو رہا ہے تو آپ امیر معاویہ کے حق میں خلافت سے دست بردار ہو گیے ان سے اپنے لیے وظائف جاری کروائے اور امیر معاویہ اس کے علاوہ بھی وقتاً فوقتاً آپ کو تحائف اور نذرانے پیش کیا کرتے تھے اور آپ قبول کر لیا کرتے تھے.

امام حسین رضی اللہ عنہ بھی امیر معاویہ کے تحائف اور نذرانے قبول کیا کرتے تھے اور آپ نے تو امیر معاویہ کی ماتحتی میں جنگوں میں شرکت بھی کی ہے.( تفصیل کے لیے دیکھیں البدايه و النهايه، اور طبری )

اہل بیت امیر معاویہ کی نظر میں
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دل میں بھی اہل بیت کے حوالے سے بڑے نیک جذبات تھے اور اہل بیت کے تعلق سے ان کا رویہ ہمیشہ ہم دردانہ اور مشفقانہ رہا ہے. درج ذیل شواہد سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے:

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے آپ کا تعلق اتنا ہمدردانہ تھا کہ جب قیصر روم نے حضرت علی کے مقبوضات پر قبضہ کرنے کا خطرناک منصوبہ بنایا اور امیر معاویہ کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے قیصر روم کو ایسا تہدید نامہ لکھا جس کو پڑھ کر اس کے ہوش اڑ گئے اور وہ اپنے ارادے سے باز آ گیا. خط کا مضمون یہ تھا:
’’اے لعنتی انسان، مجھے اپنے اللہ کی قسم ہے کہ اگر تو اپنے ارادے سے باز نہ آیا اور اپنے ملک کی طرف واپس لوٹ نہ گیا تو پھر میں اور میرے چچا زاد بھائی(علی ) تیرے خلاف صلح کر لیں گے. پھر تجھے تیرے ہی ملک سے نکال بھگائیں گے اور اس زمین کو اس کی وسعتوں کے باوجود تجھ پر تنگ کر دیں گے‘‘(البدایہ و النہایہ، ج:٨،ص:١١٩)

ذرا سوچیں کہ اگر امیر معاویہ کے دل میں حضرت علی کے لیے ہم دردی کے جذبات نہ ہوتے تو وہ قیصر روم کو ایسا تہدید نامہ کبھی نہ لکھتے بلکہ اگر کوئی ذاتی پرخاش ہوتی تو در پردہ یا علانیہ قیصر روم کی مدد بھی کرتے. حضرت علی کے حق میں امیر معاویہ کا یہ سلوک ان دونوں کے برادرانہ تعلقات کی روشن دلیل ہے.

امیر معاویہ کے دل میں اہل بیت کی کتنی قدر تھی اس کا اندازہ اس وصیت نامے سے بھی ہوتا ہے جو آپ نے اپنے مرض الموت میں اپنے بیٹے یزید کے لیے لکھوایا تھا. اس وصیت نامے کا ایک خاص اقتباس آپ بھی دیکھیں:
’’البتہ حسین بن علی سےتم کو( یعنی یزید کو )خطرہ ہے، اہل عراق انھیں تمھارے مقابلے میں لا کر چھوڑ دیں گے. جب وہ تمہارے مقابلے میں آئیں اور تم کو ان پر قابو حاصل ہو جائے تو درگزر سے کام لینا کہ وہ قرابت دار، بڑے حق دار اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیز ہیں‘‘.( طبری ج:٥،ص:١٩٦)

ان شواہد سے واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت امیر معاویہ پر اہل بیت سے بغض و عناد کا جو الزام لگایا گیا ہے وہ سراسر غلط اور بے بنیاد ہے. اس لیے ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ ان کے بارے میں سب و شتم سے ہرگز کام نہ لیں اور ان کا ذکر خیر کے ساتھ ہی کریں کہ یہی اسوہ رسول ہے، اسی میں ملت کی بھلائی ہے اور اسی میں ہم سب کی نجات ہے.

مسلم الثبوت ہے، فضیلت معاویہ
عیاں ہے شمس کی طرح کرامت معاویہ

فقیر محمد ہارون مصباحی
٢٢/رجب مطابق ٣٠/مارچ، شنبہ

 

منقبت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

آسمانِ ہدایت کے نجمِ یکتا ، محبوبِ مصطفیٰ ، صحابیِ رسول ، رہبرِ اُمت ، حبیبِ ساداتِ کرام ، پیشواے اولیا و اصفیا ، جُملہ مومنوں کے پیارے ماموں جان ، کاتبِ وحی ، صائب الراے ، عادل و ثقہ ، صاحبِ جود و سخا ، پیکرِ فکر و فن ، امیرالمومنین و خلیفۃ المسلمین حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں خراجِ عقیدت

مسلم الثبوت ہے ، فضیلتِ معاویہ
عیاں ہےشمس کی طرح کرامتِ معاویہ

وہ جس سے روٹھ جائیں تو رسول اُس سے روٹھ جائیں
نبی سے اِس طرح کی ہے قرابتِ معاویہ

خداکےفضل سےملی ، اُنھیں وہ عظمتِ گراں
کوئی نہ تول پاۓ گا ، جلالتِ معاویہ

نسب میں ہیں تجلّیاں قبیلۂ رسول کی
قُریشیت سے بڑھ گئی شرافتِ معاویہ

ہیں ان کی خواہرِ عزیز جملہ مومنوں کی ماں
بڑی شرف ماٰب ہے ، نجابتِ معاویہ

گُلِ حیات ان کا ہے صحابیت سے عطر بیز
اِسی لیے ہے نَو بہ نو ، نضارتِ معاویہ

تمام مومنوں کے آپ پیارے ماموں جان ہیں
ہمیں بہت عزیز ہے ، یہ نسبتِ معاویہ

حَسَن کےدستِ پاک سے بنے خلیفۂ رسول
رضاے آلِ مصطفےٰ ، خلافتِ معاویہ

معاویہ کے پیار سے ہمارا بیڑا پار ہے
گناہ بخشوائے گی ، شفاعتِ معاویہ

اُنھیں کوئی برا کہے تو اس کے منہ میں خاک و آگ
نہ سن سکیں گے ہم کبھی اہانتِ معاویہ

جوعاشق رسول ہیں وہ ان سے پیار کرتے ہیں
فقط منافقوں کو ہے ، عداوتِ معاویہ

یزید کے فریب کا ، معاویہ سےکیا حساب؟
نبھا نہ پایا وہ شقی ، نیابتِ معاویہ

وہ کر گئے نصیحتیں ، اصولِ حق پہ چلنے کی
پسر کے فعلِ بد سے ہے ، براءتِ معاویہ

وہ نجمِ برجِ رُشد ہیں وہ ہادیِ رہِ اِرم
فلاحِ دو جہاں بنی ، قیادتِ معاویہ

مِلا اُنھیں بھی افتخار ، وحیِ پاک لکھنے کا
ہے لا زوال تا ابد ، کتابتِ معاویہ

کہا ہے عادل و ثقہ ، محدّثین نے اُنھیں
حدیث میں ہے مُستند ، روایتِ معاویہ

اُنھیں دعا نبی نے دی ہے مہدی اور ہادی کی
ہر ایک شک سے دور ہے ہدایتِ معاویہ

تبرّکاتِ مصطفیٰ ، لحد کےواسطے چنے
عقیدے کا چراغ ہے ، وصیّتِ معاویہ

کشادہ انکا دستِ پاک آسمان کی طرح
مثالِ بارشِ رواں ، سخاوتِ معاویہ

تھے راہِ اجتہاد میں وہ دونوں ہی صواب پر
ہمیں ہے اُلفتِ علی ، عقیدتِ معاویہ

ہر ایک بُغض و کینہ سے حیات اُن کی پاک تھی
سدا ہو عِزّتِ علی ، ارادتِ معاویہ

جہانِ علم و فضل کے وہ دونوں آفتاب ہیں
نہ کم ہے طلعتِ علی ، نہ طلعتِ معاویہ

بڑوں کے اختلاف میں پڑیں نہ ہم یہی ہے خیر
ہو دل میں اُلفتِ صحابہ ، چاہتِ معاویہ

صحابہ ، تابعین ہوں ، کہ اولیاءِ دین ہوں
سب اہلِ حق نے مانی ہے امامتِ معاویہ

نہ رافضی نہ خارجی ، فقط ہیں سنی معتدل
یزید سے جُدائی اور رفاقتِ معاویہ

ہراِک عدو پہ لعنتیں خدا کی اور رسول کی
ہے باعثِ رضائے رب، اطاعتِ معاویہ

یہ گوہرِ حیات ہے ، یہ توشۂ نجات ہے
دلِ فریدی کوملی , محبّتِ معاویہ

حَسَن کےدستِ پاک سے بنے خلیفۂ رسول
رضــاۓ آل مـصطـفٰی ، خــلافـتِ معاویہ

نیچے کِلک کیجیے اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں پوری دنیا کے بڑے بڑے علمائے کرام کی ایمان افروز تقاریر اور شاندار منقبت سنیے:

Click Here

    Don`t copy text!